Monday 25 August 2008

Ahmed Faraz (1931-2008) Died August 25, 2008

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تزکرے تیرے لطف کے ھیں یہ شعر تیری شکایتیں ہیں

میں سب تیری نظر کر رہا ھوں یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کےنیًے سفر میں تجھے کسی وقت یاد آیًں

تو اک اک حرف جی اٹھے گا پہن کے الفاظ کی قبا یًیں
اداس تنھایًیوں کے لمحوں میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرایًیں

مجھے تیرے درد کے علاوہ بھی اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں

مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر یہ ریت رنگ حنا بنی ہے

یہ زخم گلزار بن گیًے ہیں یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے یہ آگ دل کی صدا بنی ہے

اور اب یہ ساری متاع ہستی یہ پھول یہ زخم سب تیرے ہیں
یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے جو کل میرے تھے اب تیرے ہیں

جو تیری قربت تیری جدایًی میں کٹ گیًے روز و شب تیرے ہیں
وہ تیرا شاعر وہ تیرا مغنی وہ جس کی باتیں عجب سی تھیں

وہ جس کے انداز خسروانہ تھے اور اداییًں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں

نہ پوچھ اس کا کہ وہ دیوانہ بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے

وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ اسی کے سینے میں گڑھ چکا ہے