Monday 16 April 2012

جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا


جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا



جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا
کہ اپنے دیس کو روتے بھی ہو
چین سے پڑ کر کر سوتے بھی ہو
اپنے دیس کا غم کیسا ہے
ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو
کس نے کہا تھا آؤ یہاں
آکر تم بس جاؤ یہاں
جب دیس تمھارا اپنا تھا
وہ شہر تمھارا اپنا تھا
وہ گلی تمھاری اپنی تھی
وہ مکاں پرانا اپنا تھا
اس دیس کو پھر کیوں چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
جب بھی دیسی مل کر بیٹھیں
قصے پھر چھڑ جاتے ہیں
ان ٹوٹی سڑکوں کے قصے
ان گندی گلیوں کے قصے
ان گلیوں میں پھرنے والے
ان سارے بچوں کے قصے
اورنگی یا کورنگی کے
پانی کے نلکوں کے قصے
ان نلکوں پر ہونے والے
ان سارے جھگڑوں کے قصے
اور نکڑ والے دروازے پر
ٹاٹ کے اس پردے کے قصے
اسے پردے کے پیچھے بیٹھی
اس البیلی نار کے قصے
جس کی ایک نظر کو ترسے
ان سارے لڑکوں کے قصے
جھوٹے قصے سچے قصے
پیار بھرے اس دیس کے قصے
پیار بھرے اس دیس کو تم نے
آخر کیوں کر چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
تم پھولے نہیں سمائے تھے
جب ایمبیسی سے آئے تھے
ہر ایک کو ویزا دکھاتے تھے
اور ساتھ یہ کہتے جاتے تھے
چند ہی دنوں کی بات ہے یارو
جب میں واپس آؤں گا
ساتھ میں اپنے ڈھیر سے ڈالر
اور پتہ بھی لاؤں گا
تم نے کب یہ سوچا ہوگا
کیا کیا کچھ پردیس میں ہوگا
اپنے دیس کے ہوتے سوتے
بے وطنی کو روتے روتے
دیس کو تم پردیس کہو گے
اور پردیس کو دیس کہو گے
دیس کو تم الزام بھی دوگے
الٹے سیدھے نام بھی دوگے
ارے دیس کو تم الزام نہ دو
الٹے سیدھے نام نہ دو
دیس نے تم کو چھوڑا تھا
یا تم نے دیس کو چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا